Orhan

Add To collaction

اممیدنو کا روشن سوےر

"میں۔۔۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں بیٹا' چکر آ گیا تھا اور شاہ سائیں آپ سنا ئیں خیریت سے تو ہیں ، نور نے آپ کی شخصیت و وجاہت کی بہت تعریف کی تھی پھر شاہ بخت جیسے فرمانبردار اور نیک لڑکے کے آپ والد ہیں تو بس آپ کی عیادت کے لئے چلا آیا اب اجازت دیجیے گا، اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ کا سایہ آپ کے بچوں اور آپ کے لوگوں پر سلامت رہے۔ اللہ حافظ۔“ یہ کہہ کر نور کے بابا نے نور کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔

"ٹھرو جلال احمد مجھے اور کتنا شرمندہ کرو گے، میں نے ہمیشہ تمہارے ساتھ برا رویہ رکھا تمہارے علم کی روشنی پھیلانے کے جذبے کو تمہارا جرم بنا دیا اور کہیں گاؤں سے زلیل کر کے رات کے اندھیرے میں در بدر کر دیا اور آج تمہاری زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں۔ تمہیں تو مجھ سے نفرت سے منہ موڑ کر چلے جانا چاہیے تھا مگرتم نے آج بھی میرا بھرم رکھا، واقعی تم نے ثابت کر دیا جلال احد کہ تعلیم انسان کو شعور و آگہی دہتی ہے۔ اس میں درگزر کی صلاحیت پیدا کرتی ہے مجھے دیکھو، میں جسے اپنی جاہ وحشمت اور اپنی گدی نشینی پر غرور تھا آج مجھے میرے

اپنے سگے بیٹے نے بی در بدر کر دیا، پورے گاؤں میں میری جگ ہنسائی

کا باعث بنا' اگر مہرو نے بروقت شاہ بخت کو اطلاع نہ دی ہوتی تو نہ جانے آج میرا کیا حال ہوتا۔" یہ کہہ کر شاہ سائیں نے شرمندگی اور ندامت سے سر جھکا لیا۔ نور کو بھی ساری کہانی سمجھ میں آ گئی تھی کہ وہ آج تک جس شخص سے نفرت کرتی آئی تھی آج ان کی زبوں حالی دیکھ کر اس کا نرم دل بھی نفرت کے بجائے ہمدردی کے جذبات سے بھر گیا' شاہ بخت تو ابھی تک سکتے کے عالم میں تھا پھر نور کے بابا نے ہی بابا سائیں کو گلے لگایا۔

" شاہ سائیں جو کچھ ہوا بھول جائیں' شاید میری قسمت میں ہی اپنی مٹی کی خدمت کرنا نہیں لکھا تھا۔"

" نہیں جلال ایسا مت کہو مجھے ایک موقع دو تلافی کا ۔ تم' نور بیٹا اور شاہ بخت نے مل کر گاؤں سے جہالت کا اندھیرا دور کر کے علم کے دیے روشن کرنا ہیں اور اس جہاد میں، میں تمہارے ساتھ ہوں" بابا سائیں کا یہ فیصلہ سن کر شاہ بخت کے ساتھ ساتھ نور اور اس کے بابا کے چہرے بھی کھل اٹھے نور کے بابا کو اس بات کی خوشی تھی کہ اللہ نے ان کی زندگی میں اپنی متی کا قرض اتارنے کا موقع دے دیا' ، پھر اگلے دن ہی شاه بخت اور نور نے نبیل سے دو ماہ کی چھٹی لی اور گاؤں کے لئے روانہ ہو گئے، گاؤں پہنچ کر ایک بہت ہی بری خبر ان کی منتظرتھی ، شاہ خاور نے جس عورت کی خاطر اپنے باپ کا شملہ نیچا کیا تھا، انہیں در بدر کیا تھا 'اس عورت نے سب اپنے نام کروا کر اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا تھا، گاؤں واپسی پر شاہ خادر کے نشے میں ہونے اور ریش ڈرائیونگ کی وجہ سے اس کی گاڑی کا ٹرک سے بڑی طرح سے ٹکراؤ ہوا تھا' وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا تھا' اس کی لاش دو دن بعد اس سنسان سڑک سے گزرتے ایک راہگیر کوملی تھی چہرا بالکل اس کا مسخ ہو چکا تھا جسم سے تعفن اٹھ رہا تھا اس کے شناختی کارڈ کے زریعے اس کی شناخت ہوئی تھی، جس نے بھی دیکھا منه پر ہاتھ رکھ لیا۔

   3
2 Comments

Abraham

08-Jan-2022 11:26 AM

Good

Reply

fiza Tanvi

15-Dec-2021 07:36 PM

Good

Reply